عالمی آبادی میں سرفہرست ہوا بھارت: اب وقت ہمارا ہے

اگردنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک کا تمغہ ہمیں کچھ دہائی پہلے ملا ہوتا تو ہوسکتا ہے یہ ملک کے لئے ایک بڑی تشویش کا موضوع ہوتا۔

April 22, 2023

علامتی تصویر

ہندوستان آخر کار دنیا میں سب سے زیادہ عوامی آبادی والا ملک بن ہی گیا۔ اقوام متحدہ کی تنظیم یونائیٹیڈ نیشنس پاپولیشن فنڈ یعنی یو این ایف پی اے کی ‘دی اسٹیٹ آف ورلڈ پاپولیسشن رپورٹ 2023 ‘ نے اس حقیقت پر مہر لگا دی ہے۔ 8 بلین لائیوس، انفنٹ پاسیبلیٹیز: دی فار رائٹس اینڈ چوائس کے ہیڈ لائن سے جاری کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی آبادی 800 کروڑ کو پار کرچکی ہے، جس میں ہندوستان کی عوامی آبادی  1,42.86 کروڑ اور چین کی عوامی آبادی 1.42.57 کروڑ ہے۔ یعنی جس وقت ان اعدادوشمار کو اس رپورٹ میں جگہ دی گئی، تب ہندوستان نہ صرف چین سے آگے نکل چکا تھا، بلکہ 29 لاکھ کا فاصلہ بھی بن چکا تھا۔

عالمی عوامی آبادی میں آئے اس تازہ ترین تبدیلی پر ہمیں جشن منانا چاہئے یا ماتم؟ دہائیوں سے ہم اسی تشویش میں ’دبلے‘ ہوتے رہے ہیں کہ کہیں سرسا کے منہ کی طرح مسلسل بڑھ رہی ملک کی عوامی آبادی ایک دن ملک کو ہی نہ نگل جائے؟ عام آدمی کو چھوڑیئے، ملک کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی آزادی کی 73ویں سالگرہ پر لال قلعہ سے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خاندان کو چھوٹا رکھنا بھی ایک طرح کی حب الوطنی سے تعبیر کیا تھا۔ تاہم اس کے اگلے ہی سال وزیراعظم کا ایک دوسرا جملہ ‘آفت میں موقع’ کا جملہ بھی لوگوں کے سامنے آیا جو کورونا کے دور میں ہماری زندگی کی عالمی علامت بن گیا۔ یہی سوچ عوامی آبادی کے اس عروج کے دور میں بھی ہماری عالمی تسلط کی بنیاد بن سکتا ہے۔

اس یقین کو تقویت ملنے کی کئی ٹھوس وجہ ہیں، جن کا اشارہ یو این  ایف پی اے کی رپورٹ میں بھی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کی 25 فیصد آبادی 14-0 عمر کے گروپ میں ہے، 19-10 سال تک کی عمر کے لوگ 18 فیصد ہیں، 24-10 سال تک کے لوگ 26 فیصد ہے، 64-15 سال تک کے لوگ 68 فیصد اور 65 فیصد سے اوپر کے لوگ 7 فیصد ہیں۔ اس لحاظ سے ہماری اوسط عمر 28 سال کی ہے، جو ہمیں دنیا کا سب سے نوجوان ملک بناتی ہے۔

ایک بڑی نوجوان آبادی کا مطلب ہے کہ زیادہ متحرک انسانی وسائل، زیادہ اقتصادی ترقی اورزندگی کا بہترمعیار۔ تین دہائی قبل جب چین نے معاشی پاورہاؤس بننے کی طرف پہلا قدم اٹھایا تو اس کی نوجوان آبادی اوسطاً 25 سال کی اس کی نوجوان عوامی آبادی اس کی ترقی میں اس کا ٹرمپ کارڈ ثابت ہوئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق، ملک میں 14-10 سال کے زمرے میں 26 فیصد لوگ ہیں، یعنی ہماری کل آبادی سے ایک چوتھائی سے تھوڑا زیادہ۔ 142 کروڑ روپئے کی آبادی میں یہ اعدادوشمار 37 کروڑ کے آس پاس پہنچتا ہے۔ آئندہ 10 سال میں یہ آبادی 34-20 عمر کے گروپ میں پہنچے گی، جو امریکہ کی کل آبادی کے برابر ہوگی۔ یعنی آئندہ ایک دہائی میں دنیا کی سب سے بڑی اکنامی میں جتنی مانگ نکل رہی ہوگی، اتنی مانگ تو ہندوستان میں صرف نوجوان طبقے سے آجائے گی۔

ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس-2022 کے مطابق، ہندوستان اس عرصے کے دوران عالمی سطح پر انسانی وسائل کا سب سے بڑا ذریعہ بھی رہے گا۔ ہندوستان کی کام کرنے کی عمر کی آبادی کا کل آبادی میں حصہ 2030 تک 68.9 فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچنے اور انحصارکا تناسب 31.2 فیصد کے نچلے ترین مقام تک پہنچنے کا امکان ہے۔ کام کرنے کی عمر کا مطلب ہے وہ طبقہ جو کسی بھی قسم کی پیداوار اور انحصار کے تناسب کی صلاحیت رکھتا ہو یعنی بچوں اور بوڑھوں کا طبقہ جو صرف استعمال کر سکتا ہے۔ اگر یہ اندازہ درست نکلتا ہے تو اگلی دہائی میں عالمی افرادی قوت کا تقریباً 24.3 فیصد ہندوستان سے آئے گا، جس کا مطلب ہے کہ دنیا کا ہرچوتھا کام کرنے والا ہندوستانی ہوگا۔ نسبتاً نوجوان آبادی ایک طرف ہندوستان کو افرادی قوت کے لحاظ سے عالمی سطح پر مسابقتی فائدہ دے گی، وہیں اس کے خرچ کرنے کا رجحان بھی مقامی طور پر مانگ کو بڑھا دے گا۔

کام کرنے کی عمرکی آبادی میں اضافے کی وجہ سے ابھی ملک میں طویل عرصے تک افرادی قوت کی مناسب فراہمی جاری رہے گی۔ ظاہرہے اس کا سرمایہ کاری اورپیداواری صلاحیتوں پر مثبت اثرپڑے گا۔ اگریہ بڑھتی ہوا افرادی قوت مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں شامل ہوتی ہے تواس سے گھریلوملکی پیداوارمیں زبردست اضافہ ظاہرکرے گی، جس کی وجہ سے مینوفیکچرنگ ہب اوردنیا کی گروتھ انجن چیئرپرہمارا قبضہ یقینی ہے، جوکل تک چین کے پاس تھا۔ ترقی پذیرمعیشتوں میں سب سے سستی مزدوری کے ساتھ ہماری طاقت بھی راستہ آسان کرے گی۔
اس کامیابی سے ہم ایک طویل عرصے تک اپنی ترقی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ کو بھی دور کر سکتے ہیں۔ عام مساوات یہ ہے کہ منحصر آبادی صرف استعمال کرتی ہے، پیدا نہیں کرتی، لیکن اس سے کہیں زیادہ پیدا کرتی ہے جو ایک کارکن کھاتا ہے۔ اس لیے کام کرنے کی عمر کی بڑھتی ہوئی آبادی اگلے 25 سالوں میں اس سے کہیں زیادہ پیدا کرے گی، اور اس سے ہمیں طویل مدتی افراط زر سے نجات مل سکتی ہے۔ ساتھ ہی، اضافی کام کرنے والی آبادی اجرت کی شرح میں بھی کمی لائے گی، جس سے لاگت میں اضافے کی افراط زر میں بھی کمی آئے گی۔ سی آئی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر آبادی کے اس ڈیویڈنڈ کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو ترقی کے امکانات روشن ہوں گے، تاکہ ہم اپنی جی ڈی پی کو 3 ٹریلین ڈالر کی موجودہ سطح سے 2030 تک 9 ٹریلین ڈالر اور 40 ڈالر تک لے جا سکیں۔ 2047 ٹریلین تک پہنچا سکتے ہیں۔

لیکن اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو آبادی کے منافع کی یہ نعمت بھی ایک بڑی لعنت بن سکتی ہے۔ آنے والے وقتوں میں اگر ہم اپنی نوجوان آبادی کے لیے خاطر خواہ روزگار پیدا نہ کر سکے یا ان ملازمتوں کے مطابق نوجوانوں کو تیار نہ کر سکے تو ایسی صورت حال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ مناسب تعلیم اور مناسب مہارت کی ترقی اس کا جواب ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی بصیرت والی قیادت میں موجودہ حکومت نے نوجوانوں میں ہنر مندی کو فروغ دینے کے لیے پہلے ہی پالیسیوں اور اسکیموں کو نافذ کیا ہے، صنعت کاری وغیرہ۔ آئی ٹی، اسٹارٹ اپس اور بی پی او خدمات برآمد کرنے میں ہندوستان کی کامیابی بھی اس بات کی ایک اچھی مثال ہے کہ ہندوستان نے کس طرح اپنی آبادی کا فائدہ اٹھایا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور معاشی ترقی کے لیے بھی کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ایسا ہی ایک قدم ہنر کی ترقی اور انٹرپرینیورشپ کی وزارت کا قیام تھا، جو کاروباروں اور کاروباری افراد کو فنڈنگ ​​اور ہنر مندی کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ پردھان منتری کوشل وکاس یوجنا 4.0 کے آغاز کے ساتھ اگلے تین سالوں میں لاکھوں نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے، حکومت نے اب اسکل انڈیا پروگرام کے لیے 2,278.37 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ اقتصادی سروے کے مطابق، مالی سال 2017 میں اسکیم کے آغاز کے بعد سے، ایک کروڑ سے زائد شہریوں کو اندراج اور تربیت دی گئی ہے اور 7.4 لاکھ افراد نے تیسرے ایڈیشن کے تحت کسی نہ کسی کاروباری مہارت کو حاصل کیا ہے۔

دوسرا چیلنج تعلیم سے متعلق ہے۔ این ایس ایس اوکی ایک رپورٹ کے مطابق، صرف 59.5 فیصد نوجوان ہندوستانی خواندہ ہیں۔ شہری بمقابلہ دیہی اورمختلف سماجی واقتصادی حالات کے درمیان تعلیم کے معیارمیں اب بھی تفاوت ہے۔ تاہم اب اس طرف بھی توجہ دی جارہی ہے۔ ہندوستان میں آج پہلے سے کہیں زیادہ اعلیٰ تعلیم کےادارے ہیں۔ سال 2015 سے 2018 تک 150 نئی یونیورسٹیاں اور 1,570 سے زیادہ کالجزشروع ہو چکے ہیں۔ سال 2014 سے ملک میں 7-7 نئےآئی آئی ٹی اورآئی آئی ایم کی منظوری کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی بھی ہماری نوجوان آبادی کو جدید اورمعیاری تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ نئے دورکی ضروریات کو مدنظررکھتے ہوئے تیارکی گئی ہے۔

افرادی قوت میں خواتین کی شرکت پربھی غورکرنے کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں، ہماری موجودہ شرح 20 فیصد ہے، جو تقریباً 47 فیصد  کے عالمی اوسط کی نصف سے بھی کم ہے۔ ویسے پچھلے سال میں اعلیٰ تعلیم میں داخلے کی کل تعداد کا تقریباً 49 فیصد طالبات کا تھا۔ اس بڑھتے ہوئے رجحان کے ساتھ، ہندوستان کوآنے والے سالوں میں افرادی قوت  میں خواتین کی شرکت کا ایک بڑا تناسب ہونے کی توقع ہے۔

اگردنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک کا تمغہ ہمیں کچھ دہائی پہلے ملا ہوتا تو ہوسکتا ہے کہ یہ ملک کے لئے ایک بڑی تشویش کا موضوع ہوتا۔ تاہم آج حالات کافی حد تک بدل چکے ہیں۔ صلاحیت اورمحنت کے ساتھ ساتھ نئی ایجادات اوران کی حوصلہ افزائی کرنے والی حکومت کی پالیسی سے ملک میں مجموعی ترقی کے لئے ایک ایسا ایکو سسٹم تشکیل دیا ہے جومسلسل کامیابیوں کی نئی بلندیوں کو چھونے کے ساتھ ہی معاشی میدان میں بھی نئے مواقع بھی پیدا کر رہا ہے۔ واضح طور پر، آج ہمارا وقت ہے اوراس لئے، اگرآبادی ایک چیلنج ہے، تواسے طاقت بنانے کے لئے ہمارے پاس پہلے سے کہیں زیادہ مواقع ہیں۔

-بھارت ایکسپریس