America caught in debt crisis: قرضوں کے بحران میں پھنسا امریکہ-کنگالی کی ڈگر، ساکھ پر تلوار

چین کو امریکہ سے سیکھنا چاہیے کہ طاقتور ترین رہنے پر اصرار کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ آٹھ دہائیوں تک امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور اور امیر ترین ملک رہا لیکن جنگ کی تیاریوں اور جدید ترین اور مہنگے ہتھیاروں کے بل بوتے پر دنیا پر حکمرانی کے منصوبے نے اسے آج غربت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

قرضوں کے بحران میں پھنسا امریکہ-کنگالی کی کگار، ساکھ پر سوال

America caught in debt crisis:  دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور امریکہ بحران کے دور سے گزر رہا ہے۔ اس کے پاس اپنی ساکھ بچانے میں ایک ماہ سے بھی کم وقت باقی ہے۔ امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے خبردار کیا ہے کہ اگر بائیڈن انتظامیہ قرض کی حد کو بڑھانے یا معطل کرنے میں ناکام رہی تو یکم جون تک امریکہ کے پاس نقد رقم ختم ہو سکتی ہے۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت نے اپنے اخراجات کی حد عبور کر لی ہے اور اگر اس نے فوری طور پر قرض لینے کی حد میں اضافہ نہیں کیا تو یکم جون 2023 کو حکومت کے پاس ملک چلانے کے لیے پیسہ ختم ہو جائے گا، حکومت کیش لیس ہو جائے گی۔ ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے ییلن نے حکومت سے جلد از جلد کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔

صدر جو بائیڈن نے اس معاملے پر 9 مئی کو کانگریس لیڈروں کی میٹنگ بلائی ہے۔ امریکی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے ایوان ریپبلکنز نے گزشتہ ہفتے قرض کی حد کو بڑھانے کے لیے ایک بل منظور کیا، جس میں غریبوں کے لیے صحت کی دیکھ بھال سے لے کر امیروں کے لیے پروازوں تک کے اخراجات میں سخت کٹوتیوں کی تجاویز شامل ہیں، لیکن حکومت ڈیموکریٹس نے اسے یکسر مسترد کر دیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن قرض کی حد بڑھانے کے بعد ہی بجٹ میں کٹوتیوں پر کسی بھی طرح کی بحث کے اپنے موقف پر قائم ہیں۔

پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو 1960 کی دہائی سے لے کر اب تک امریکہ میں قرض کی حد کو 78 مرتبہ بڑھا یا جا چکا ہے۔ رونالڈ ریگن نے 19 بار، بل کلنٹن نے آٹھ بار، جارج ڈبلیو بش نے سات بار اور براک اوباما نے پانچ بار توسیع کی۔ یعنی حکومت جس کی بھی ہو، قرضوں کا بحران امریکہ کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امریکی قرض کی حد کیا ہونی چاہیے اس پر بحث کا ایک نیا باب 2011 میں شروع ہوا، جب صدر براک اوباما اور ریپبلکن قانون سازوں کے درمیان اخراجات میں کٹوتیوں پر تنازعہ ایک طویل تعطل کا باعث بنا۔ امریکی کانگریس بالآخر طے شدہ تاریخ سے صرف دو دن قبل قرض کی حد بڑھانے کے فیصلے تک پہنچنے میں کامیاب رہی۔

اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن اگر ایسا نہ ہوا اور ڈیفالٹ ہونے کا امکان رہا تو امریکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہی ہوگا۔ چونکہ ایسی صورت حال پہلے کبھی نہیں ہوئی اس لیے اس کے اثرات کا درست اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ ڈیفالٹ کی وجہ سے امریکہ کساد بازاری کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، جی ڈی پی پانچ فیصد ڈوب سکتی ہے اور بے روزگاری تمام حدیں پار کر سکتی ہے۔ تقریباً 70 لاکھ نوکریوں پر فوری طور پر تلوار لٹک جائے گی۔ امریکہ اپنے سرکاری ملازمین اور فوجی اہلکاروں کی تنخواہوں، سماجی تحفظ یا دفاعی ادائیگیوں جیسی دیگر ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے نیا قرض نہیں لے سکے گا۔ موٹے طور پر دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ جس نے دنیا کو محفوظ رکھنے کا ٹھیکہ لیا ہے، وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہے گا، جس کی وجہ سے عام امریکی جانوں کو غیرمعمولی نقصان اٹھانا پڑے گا جس کا ازالہ کئی دہائیوں تک نہیں ہوگا۔

صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کا قرض اور جی ڈی پی کا تناسب 120 فیصد تک پہنچ گیا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران سے بھی زیادہ ہے۔ حال ہی میں امریکہ کے دو بڑے بینک ڈوب گئے اور بہت سے ڈوبنے کے دہانے پر ہیں۔ لوگوں نے چند دنوں میں بینکوں سے ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ کی رقم نکال لی ہے۔ جس کی وجہ سے بینکوں کی حالت ابتر ہو گئی ہے۔ لیکن امریکہ کے اندر نظر آنے والا یہ مسئلہ اتنا گھریلو نہیں ہے۔ اس سے دنیا بھر کے بازاروں میں ہنگامہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی ڈالر کو دنیا کی ریزرو کرنسی کا درجہ حاصل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک اپنی کرنسی پر بحران کی صورت میں ڈالر کو بیک اپ کرنسی کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ اب جب امریکہ ڈیفالٹ کی صورت میں اپنے بل ادا نہیں کر سکے گا تو سرمایہ کاروں کا اس پر سے اعتماد اٹھ جائے گا اور وہ امریکی ٹریژری بانڈز بیچنا شروع کر دیں گے۔ جس کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں ڈالر کی قدر اور امریکہ کی حیثیت دونوں گرنا شروع ہو جائیں گے۔ اس سے وہ ممالک مشکل میں پڑ جائیں گے جو اپنی معاشی سرگرمیوں کے لیے امریکہ پر انحصار کرتے ہیں۔ آج دنیا کے 60 فیصد زرمبادلہ کے ذخائر ڈالر میں ہیں، یعنی اگر ڈالر گرتا ہے تو آدھی سے زیادہ دنیا مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔ غریب ممالک جن کی معیشت ڈالر میں لیے گئے قرضوں پر مبنی ہے وہ دیوالیہ ہو سکتے ہیں۔ ایک کمزور ڈالر دیگر کرنسیوں میں قرضے کو مزید مہنگا بنا دے گا، جو ممکنہ طور پر ترقی پذیر ممالک کو قرضوں کے نئے بحران میں ڈال دے گا۔ کم از کم 21 ممالک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہیں یا اپنے قرض کی ادائیگی کی شرائط میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق، 15 فیصد کم آمدنی والے ممالک قرضوں کے بحران کا شکار ہیں، 45 فیصد ممالک غیر محفوظ ہیں، اور ایک چوتھائی ترقی پذیر ممالک ہائی رسک کے زمرے میں آ چکے ہیں۔

امریکہ کی اس پریشانی کا اثر بھارت پر بھی نظر آئے گا۔ بھارت کو بیک وقت امریکہ اور چین دونوں پر نظر رکھنی ہوگی۔ ایک طرف G-20 کے صدر کی حیثیت سے امریکہ کے قرضوں کے بحران کا حل ہندوستان کی ترجیح ہو گی وہیں چین اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ڈالر کے اتار چڑھاؤ نے چین کے عزائم کو ہوا دی ہے۔ چین طویل عرصے سے ڈالر کو اپنی کرنسی، رینمنبی (یوآن) سے بدلنے کا خواب دیکھ رہا ہے، جسے دنیا کی ریزرو کرنسی کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اگرچہ رینمنبی اس وقت عالمی زرمبادلہ کے ذخائر میں تین فیصد سے بھی کم ہے، چین امریکی قرضوں کے بحران کو اپنی کرنسی کے لیے عالمی شناخت حاصل کرنے کے سنہری موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔ درحقیقت چین ماضی میں کئی ممالک کو بھاری قرضے دے چکا ہے۔ ڈالر کے کمزور ہونے سے یہ قرضے اب مہنگے ہو گئے ہیں اور کئی ممالک ان کی ادائیگی کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ چین کی جانب سے ان قرضوں کو معاف کرنے یا ادائیگی کی شرائط میں تبدیلی سے انکار ان ممالک میں تعطل کا باعث بنا ہے۔ ماضی کے تجربات کو دیکھا جائے تو امکان ہے کہ چین اس صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کر سکتا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ایک نئے نظام کے ابھرنے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ یہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے لیے بالکل بھی اچھی خبر نہیں ہے۔

چین کو امریکہ سے سیکھنا چاہیے کہ طاقتور ترین رہنے پر اصرار کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ آٹھ دہائیوں تک امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور اور امیر ترین ملک رہا لیکن جنگ کی تیاریوں اور جدید ترین اور مہنگے ہتھیاروں کے بل بوتے پر دنیا پر حکمرانی کے منصوبے نے اسے آج غربت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ آج امریکہ اکیلے ہی بہت سے ممالک کو تباہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے لیکن تباہی کے اس کھیل میں خود امریکہ معاشی محاذ پر تباہ ہو رہا ہے۔ فی الحال اس پر منڈلا رہا قرضوں کا بحران شاید حل ہو جائے لیکن یہ مسئلہ آنے والے دنوں میں امریکہ کو بار بار پریشان کرے گا کیونکہ اس کے بجٹ کا بڑا حصہ میڈیکیئر اور سوشل سکیورٹی اسکیموں پر بھی خرچ ہوتا ہے۔ جیسا کہ امریکی آبادی کی عمر بڑھ رہی ہے، ان اخراجات میں مزید اضافہ متوقع ہے، جس سے نہ صرف امریکی معیشت پر دباؤ پڑے گا، بلکہ عالمی معیشت کے لیے طویل مدتی چیلنجز بھی پیدا ہوں گے۔

-بھارت ایکسپریس